27 نومبر 2024
آج صبح حسبِ عادت جنگ اخبار پڑھا تو حامد میر صاحب کا تازہ ترین کالم نظر سے گزرا۔ کالم میں وہ کچھ ناراض دکھائی دیے اور بار بار مجھے “موصوف” کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ تاہم، ایک بار پھر میں ان کے تمام نکات کا جواب دلیل کے ذریعے دینے کی کوشش کروں گا۔
بلوچستان: تاریخ، حقائق اور “بالادز” کی اہمیت
سب سے پہلے، بلوچوں کی تاریخ کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ ہمیشہ “بالادز” (ballads) یعنی منظوم کلام کی صورت میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی ہے۔بلوچ معاشرہ اس طرز تاریخ کو اتنا ہی مصدقہ مانتا ہے جتنا ایک قاری کتاب کو۔ اس لیے بلوچوں کی تاریخ سے “بالادز” کی اہمیت کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان: تاریخ، حقائق) سہیل وڑائچ کے کالم پر وضاحت)
پہلی وضاحت سہیل وڑائچ صاحب کے 23 نومبر 2024 کو شائع ہونے والے کالم “بلوچستان پر سلگتا مکالمہ” کے حوالے سے ہے۔ میں نے ان کے سامنے یہ دلیل دی تھی کہ ریاست قلات کے الحاق کے بعد آغا عبدالکریم نے بغاوت کی اور افغانستان ہجرت کر گئے، جو ان کا سسرال بھی تھا۔ اس کے جواب میں ریاست پاکستان نے ایک محدود علاقے میں محدود فوجی کارروائی کی۔ سہیل صاحب نے شاید اسے پورے بلوچستان کا آپریشن سمجھا اور لکھ دیا۔
(اسلام آباد میریٹ میں گفتگو کا حوالہ )بلوچستان: تاریخ، حقائق
میر حامد صاحب، اسلام آباد میریٹ میں آپ سے نشست کے دوران بھی میں نے اسے محدود فوجی کارروائی کہا تھا۔ جہاں تک میرا دعویٰ ہے کہ آپ نے ایک علیحدگی پسند رہنما کی خلیجی ملک کے وزیر دفاع سے ملاقات کرائی، اس کا راوی کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہیں۔ آپ نے اسلام آباد کلب کے کرکٹ گراؤنڈ میں چند سینئر صحافیوں کے سامنے یہ ذکر کیا تھا۔
آپ نے ٹی وی مذاکرے کی دعوت یہ کہہ کر رد کر دی کہ اس سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ میں آپ سے متفق ہوں، لیکن ایسے مذاکرے سے قارئین اور ناظرین کو حقائق ضرور معلوم ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کا تعلق ہے، مجھے ان پر اعتراض نہ تھا اور نہ ہے۔ میں ڈاکٹر مالک بلوچ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور وہ بھی اس احترام کا اعتراف کرتے ہیں۔ میرا اعتراض صرف اتنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی کابینہ اور صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
آپ کے کالم میں مذاکرات سے انکار کی وجہ مجھے قرار دیا گیا، لیکن میں بارہا اسمبلی میں مذاکرات کی حمایت کرتا رہا ہوں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے جو سلوک ہونا چاہیے، میں اس کا بھی حامی ہوں۔ آپ کے توسط سے، میں ریاست پاکستان اور حکومت بلوچستان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے تنازع حل ہو تو اس سے بہتر کچھ نہیں۔ لیکن ساتھ ہی، ریاست کو معصوم لوگوں کے قاتلوں کا قلع قمع بھی کرنا چاہیے۔
آپ نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے اسلام آباد واقعے کا ذکر کیا اور مجھے اُس وقت کا وزیر داخلہ قرار دیا، جبکہ میں اس وقت مستعفی ہو چکا تھا۔ آپ نے ایک سال پرانی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ کو پرامن احتجاج کا حق تھا، لیکن احتجاج کی جگہ کا تعین کرنا انتظامیہ کا اختیار ہے۔
میر صاحب، بلوچستان کے لوگ آپ سے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بار بار گئے، لیکن وہیں معصوم شہیدوں کے ورثا بھی 22 دن تک کیمپ میں بیٹھے رہے، اور آپ وہاں 22 سیکنڈ کے لیے بھی نہ گئے۔ آپ نے ان لوگوں کو مظلوم سمجھا، لیکن ان پانچ ہزار معصوم شہریوں کا کیا جو دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے؟ ان میں اساتذہ، ڈاکٹر، سیاسی کارکن اور صحافی شامل ہیں۔ کیا یہ مظلوم آپ کی توجہ کے مستحق نہیں تھے؟
میں نے کبھی سردار عطاء اللہ مینگل یا میر غوث بخش بزنجو کو اپنی تقریروں میں غدار نہیں کہا۔ سردار عطاء اللہ مینگل صاحب نے وزیراعلیٰ بنتے ہی تمام پنجابی اساتذہ، پولیس افسران اور ٹیکنوکریٹس کو صوبہ بدر کرنے کا حکم دیا۔ میں آج بھی اس فیصلے کو غلط سمجھتا ہوں اور بلوچستان کے تعلیمی نظام کی تباہی کی بنیاد قرار دیتا ہوں۔
آپ نے نواب نوروز خان اور تین بلوچ سرداروں کا ذکر کیا، لیکن ایک سردار کا نام غلط لکھا۔ ان کا نام سردار بلوچ خان تھا، سردار خان محمد نہیں۔ براہِ کرم تصحیح فرما لیں۔ نواب نوروز خان اور سردار عطاء اللہ مینگل کے درمیان ہونے والے مکالمے کو حضور بخش خضداری نے اپنی “بالادز” میں بیان کیا ہے۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ اسے براہوی یا اردو میں ترجمہ کروا کر قارئین تک پہنچائیں۔
وڈھ میں ہونے والے دربار کا ذکر بھی ضروری ہے۔ کیا آپ جان سکتے ہیں کہ اس وقت کے میجر جنرل حق نواز نے تھری ناٹ تھری رائفل کس قبائلی شخصیت کو کن خدمات کے بدلے تحفے میں دی تھی؟
میر صاحب، آپ کے احترام میں یہ کالم کا سلسلہ ختم کر رہا ہوں۔ جب بھی آپ حکم دیں، ٹی وی مذاکرے کے لیے حاضر ہوں۔
پاکستان زندہ باد!
“https://quickscholor.blog/” ہمارے ویب سائٹپر وزٹ کریں تاکہ مزید خبریں حاصل کر سکیں