حال ہی میں نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک نے ایک متنازع بیان دیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں سرحد پار اسمگلنگ کا آغاز مرحوم جنرل سرفراز نے کیا تھا۔ یہ ایک سنجیدہ اور بے بنیاد الزام ہے، کیونکہ اسمگلنگ کا مسئلہ اس خطے میں بہت پہلے سے موجود ہے، اور اس بات کا خودشہید ڈاکٹر عبدالمالک نے پہلے اعتراف کیا ہے۔ اس سیاق میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر اسمگلنگ کئی دہائیوں سے ایک مستقل مسئلہ ہے، تو اسے ایک فرد پر کیسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
بلوچستان کی اسمگلنگ اور معیشت پرممکنہ تباہ کن نتائج
ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں تقریباً 30 لاکھ لوگ اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور اس کے ممکنہ تباہ کن نتائج پر تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، حقیقت پسندانہ جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ برسوں سے جاری اسمگلنگ کے باوجود مقامی آبادی کی زندگیوں میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ اگر اسمگلنگ اس پیمانے پر ہو رہی ہے تو مکران اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں زیادہ خوشحالی دکھائی دینی چاہیے تھی، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ غیر قانونی تجارت لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے بڑھا رہی ہے۔
اسمگلنگ کے حقیقی منفی اثرات دہشت گردی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر ان اسمگلنگ نیٹ ورکس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں، ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد سرحدوں کے پار اسمگل کرتے ہیں، جس سے علاقے کی سیکیورٹی مزید غیر مستحکم ہوتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس اسمگلنگ سے سب سے زیادہ فائدہ مقامی لوگوں کو نہیں بلکہ ان لوگوں کو ہو رہا ہے جو غیر قانونی سرگرمیوں سے کمیونٹی کی قیمت پر منافع کمانا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا پیسہ اسلام آباد پہنچ جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں رہنے والی بلوچ برادری کے بہت سے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح قوم پرست رہنماؤں نے اسمگلنگ سے فائدہ اٹھا کر بیرون ملک شاندار مکانات اور کاروبار بنائے ہیں۔ اگر کچھ پیسہ اسلام آباد بھی پہنچتا ہو تو کیا اس سے یہ غیر قانونی تجارت جائز قرار دی جا سکتی ہے جو کہ اس خطے کی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے؟
کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسمگلنگ ختم کرنے سے روزگار ختم ہو جائے گا۔ تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسمگلنگ مقامی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ ہنر مند محنت کی مواقع کو روکتی ہے، زراعت اور جائز تجارت پر منفی اثرات ڈالتی ہے، اور جرائم کی شرح میں اضافہ کرتی ہے۔ اسمگلنگ ایک پائیدار روزگار کا ذریعہ ہونے کے بجائے، مزدوروں کے استحصال اور سماجی تانے بانے کی خرابی میں اضافہ کرتی ہے۔
مزید برآں، اسمگلنگ نہ صرف دہشت گردی بلکہ منشیات کی اسمگلنگ جیسے مسائل کو بھی ہوا دیتی ہے، جو سماجی ڈھانچے کو مزید کمزور کرتی ہے۔ نتیجتاً، مقامی معیشت نیچے کی طرف جاتی ہے، اور آبادی کو قانونی ترقی کے مواقع سے محروم کر دیتی ہے۔
بلوچستان میں اسمگلنگ کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ نہ صرف صوبے کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ دہشت گردی کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے غیر قانونی سرگرمیوں کا دفاع یا جواز پیش کرنے کے بجائے، انہیں عام آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے وقار کے ساتھ جائز روزگار کے مواقع کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
آخر میں، اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا اور پائیدار، قانونی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ہی بلوچستان کی طویل مدتی خوشحالی کا واحد راستہ ہے
“https://quickscholor.blog/” ہمارے ویب سائٹپر وزٹ کریں تاکہ مزید خبریں حاصل کر سکیں